تعارف
احمد علی اکبر کا تعلق نئی نسل کے باصلاحیت فنکاروں سے ہے۔ وہ تھیٹر، ٹیلی وژن اور فلم تینوں میڈیم میں اپنی اداکاری کی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں، تازہ ترین فلم لال کبوترمیں مرکزی کردار ادا کیا ہے جبکہ اس فلم کے علاوہ پرچی، کراچی سے لاہور اور دیگر فلموں میں کام کرچکے ہیں ۔ ٹیلی فلموں میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی وژن کے کئی معروف ڈراموں کابھی حصہ رہے ،جن میں دوسری بیوی، شہر اجنبی، گزارش، پیوند اور دیگر شامل ہیں۔ ان کے والد محمد علی اکبر ٹینس کے معروف کوچ رہے ہیں اور علی خود بھی قومی سطح پر یہ کھیل کھیلتے رہے ہیں، اب ان کے بھائی پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان سے کیاگیا مکالمہ پیش خدمت ہے۔
س: آپ اپنی فلم لال کبوتر تک کیسے پہنچے؟
ج: کئی برس پہلے میں ایک دوست کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اس نے مجھے ایک میوزک ویڈیو دکھائی، میں اس سے بہت متاثر ہوا، میں نے کہا، اس طرح کے ہدایت کار کے ساتھ میں مجھے کام کرنا ہے، اتنی دیر میں کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک شخص اندر داخل ہوا، اس کا نام کمال تھا، اس نے میرا تھیٹر کا کھیل دیکھ رکھاتھا،اسی موقع پر مجھے پیشکش کی ، وہ جب بھی فلم بنائے گا،مجھے ضرور اس کا حصہ بنائے گا، پھر آخرکار وہ وقت آگیا، میں نے آڈیشن دیا اور اس فلم کا حصہ بن گیا۔
س: اس فلم میں کام کرتے ہوئے کوئی مشکل پیش آئی؟
ج: بالکل، وہ یہ تھی کہ فلم کی کہانی کراچی شہر کے اردگرد گھومتی ہے، تو ایک کراچی کے لڑکے کی بول چال کیسی ہونی چاہیے، اس پر کام کیا، تاکہ میرا کردار متاثرکن ہوا ور اس میں کوئی تکنیکی جھول نہ رہے۔ اس کردار کواپنے اندر اتارنے میں کافی کوشش کی، میں نے کبھی سگریٹ نہیں پی نہ کان میں بالی پہنی، لیکن اس کردار کو نکھارنے کے لیے میں نے یہ کام بھی کیے۔ ریہرسل کے مراحل میں بھی بہت زیادہ سیکھا۔ تھیٹر میں کام کرنے کی وجہ سے مجھے کردار کو دریافت کرنا اور نکھارنا آتا ہے، اس لیے میں نے کافی محنت کی۔
اداکاری میں بھی پیررل سینما اور حقیقی اداکاری کو مدنظر رکھا، یہ ساری تعلیم تھیٹر کی دی ہوئی ہے، اگر اچھا اسکرپٹ مل جائے تو پھر آپ اپنی کہانی اور کردار کو بہت اچھے طریقے سے نبھاسکتے ہیں۔ تھیٹر نے ہمیں اپنی انا کو ہمیشہ کام سے دور رکھنا سکھایا، میں نے اپنے ہدایت کار کی صلاحیتوں پر اعتبار کیااور میں نے جو بھی کام اس فلم میں کیا، اس سے میں نے بہت سیکھا، یہ سب کچھ نیا تھا، تھیٹر ہمیشہ آپ کو توڑتا اور جوڑتا ہے، اس احساس نے بھی مجھے بہت سیکھنے میں مدد دی۔ ہدایت کار کی تجاویز اور کچھ فلموں کو دیکھنے کی ہدایت تھی، وہ فلمیں اور ان کے کردار دیکھے، پھر اپنے انداز میں ان کو اتارا، ہماری فلم ان سب سے مختلف اور منفرد ہے۔

علی احمد اکبر ، منشا پاشا ۔ 2019 میں پاکستان کی طرف سے آسکر ایوارڈز کے لیے بھیجی جانے والی آفیشل انٹری
س: آپ نے تھیٹر اور ٹیلی وژن کے ساتھ ساتھ ، اس فلم کے علاوہ چار فلموں میں کام کیا ہے، اس سب کام کی تفصیلات بتائیے
ج: میں نے جن فلموں میں کام کیا، ان میں سیاہ، کراچی سے لاہور، ہو من جہاں اور پرچی شامل ہیں۔ میں ہمیشہ نت نئے تجربات کرنے کا بہت شوق ہے اور میں ذاتی اورپیشہ ورانہ طورپر اس طرح کی سرگرمیاں دل سے کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں نے دو ٹیلی فلموں میں بھی اداکاری کی ہے، جبکہ آٹھ نو ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کرچکاہوں۔ میراتعلق راولپنڈی کے ٹینس اور کرکٹ کھیلنے والے گھرانے سے ہے اور جب میں تھیٹر میں کام کرنے کی غرض سے 2014 میں کراچی آیا، تو اس کے بعد سے اب تک یہاں ہوں اور کام کر رہا ہوں۔

خرم سہیل ، احمد علی اکبر ۔ دورانِ مکالمہ
س: ٹینس اور کرکٹ کے پس منظر کے بارے میں بتائیے۔
ج: اسکواش کے معروف کھلاڑی ماجد خان ہمارے عزیز ہیں، جبکہ میرے والد محمد علی اکبر خود ٹینس کے کھلاڑی رہے۔ میرے بڑے بھائی بابرعلی اور چھوٹے بھائی عابد اکبر نے قومی سطح پر کھیل کے اس میدان میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ میں نے بھی مقامی طورپراسکواش کافی کھیلا ہے، اس سے مجھے بہت فائدہ ہوا، ہارنا جیتنا، ہمت کرنا سیکھا۔ میں نے جب ہوش سنبھالا ، تو میرے اردگرد ٹینس کے گیند اورمیدان موجود تھے، میں نے ساری زندگی یہ کھیل کھیلا، کرکٹ بھی کھیلی۔ میں نے 2004 میں ’’نفس‘‘نامی بینڈ کے ذریعے میوزک کے شعبے میں بھی کام کیا، پروگریسیو روک بینڈ کے طور پر کافی عرصہ فعال رہے، یہ سب کام کرنے کا بہت فائدہ ہوا۔
س: تھیٹر، ٹیلی وژن اور فلم کے میڈیم میں کس میں کام کرکے زیادہ لطف ملتا ہے ؟
ج: ایک اداکار کے لیے تھیٹر وہ شعبہ ہوتاہے، جس میں وہ مطمئن ہوتاہے،جبکہ فلم کو میں ڈائریکٹر کا میڈیم سمجھتا ہوں۔ ٹیلی وژن ڈراما رائٹر کا میڈیم ہے، وہ کہانی کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ چلتا ہے۔ فلم اور تھیٹر میری اداکاری کے لیے ایک ایسی جگہ ہے، جہاں ہم ناظرین کو اپنے کام سے حیران کرسکتے ہیں۔
س: کوئی بات جو نئے فلم سازوں اور قارئین سے کہنا چاہیں؟
ج: بس اتنا کہوں گا کہ اب کوئی وجہ نہیں بنتی کہ آپ معذرت کریں اور اپنی کہانی پیش نہ کرسکیں، جوآپ نے سوچ رکھی ہے۔ اب ہر طرح کی سہولت اور آلات موجود ہیں، جن کے ذریعے آپ اپنے وسائل کے مطابق بہترین طریقے سے اپنی کہانی کو پیش کرسکتے ہیں، بس آپ کے پاس اچھی کہانی ہونی چاہیے، اس کو تلاش کرلیں، باقی تو سب کچھ اب دستیاب ہے، جس کے ذریعے اچھی فلم بن سکتی ہے۔