تعارف
پاکستانی اداکارہ منشا پاشا نے دنیائے شوبز میں تکنیکی شعبے سے اپنے کیرئیر کی شروعات کیں، پھر بہت جلد اداکاری کی طرف آگئیں۔ ٹیلی وژن سے شہرت ملی، فلم کے شعبے میں بھی قدم رکھا، اب تک کئی اشتہاروں میں ماڈلنگ کرنے کے علاوہ بطور اداکارہ جن ڈراموں میں اداکاری کی صلاحیتیں ثابت کیں، ان میں شہر ذات، زندگی گلزار ہے، وراثت، محبت صبح کا ستارہ ہے اور دیگر شامل ہیں۔ 2011 سے اب تک 30سے بھی زیادہ ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں، وہ فلموں میں ’’آلٹریٹڈ اسکن‘‘ اور’’چلے تھے ساتھ‘‘ کے علاوہ یہ فلم ’’لال کبوتر‘‘ شامل ہے، جس میں انہوں نے مرکزی کردار نبھا یا۔
انٹرویو : منشا پاشا
انٹرویور : خرم سہیل

پاکستانی اداکارہ ۔ منشا پاشا
س: دورِحاضر میں پاکستانی سینما نئے عہد میں داخل ہو رہا ہے، جس میں مختلف نوعیت کی فلمیں بنائی جا رہی ہیں، آپ نے ابھی ایکشن فلم’’لال کبوتر‘‘ میں مرکزی کردار نبھایا، خاتون اداکارہ کا مرکزی کردار نبھانا بھی اب ایک نئی روایت ہے،یہ تجربہ کیسا رہا ؟
ج: مجھے لگتا ہے، مرکزی کردار ہو یا پھر معاون کردار، میں اپنے ہر کردار کو بہت سنجیدگی سے کرتی ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے، میں اپنے کام سے انصاف کرتی ہوں پھر میں کسی کردار کو کرنے کی حامی بھرتی ہوں، تو اس کے لیے محنت کرتی ہوں اور اسے کامیاب بنانے کی ہرممکن کوشش کرتی ہوں۔ مجھے لگتاہے ، کام سے محبت کرنے کا یہی اندازہی کام سے انصاف کرواتا ہے، ہاں البتہ مرکزی کردار مل جائے، جیسا میں نے اس فلم میں کیا، تویہ ایک ذمے داری ضرور ہے، مجھے اس کا احساس بھی ہوتا ہے، لہٰذا میں نے اپنی پوری توانائی صرف کی ہے۔ ہدایت کاری کی پسندیدگی بھی معانی رکھتی ہے، اگر انہیں میرا کام پسند آگیا ہے اور وہ مطمئن ہیں تو پھر میں سمجھتی ہوں کہ میں نے اپنی ذمے دار ی احسن طریقے سے نبھا دی۔
س: آپ کی شخصیت دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے، آپ بہت جلدی کسی سے گھلتی ملتی نہیں، وقت لیتی ہیں، شوبز کے شعبے میں، جہاں رنگا رنگی اور بات چیت کرنا لازمی ہے، وہاں اس مزاج کے لوگ کم دیکھے گئے ہیں، تو آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
ج: میں ایسی نہیں ہوں(قہقہہ) ہاں یہ ضرور ہے، میں کچھ وقت لیتی ہوں، مگر میں بہت گفتگوکرتی ہوں اور اپنے خیالات کا اظہار بھی آسانی سے کرتی ہوں، جیسے کہ ابھی آپ سے کر رہی ہوں۔ فلمی صنعت میں بہت زیادہ گفتگو کرنے والے یا ایسے لوگوں سے موازنہ کریں گے، جن کے ساتھ تنازعات جڑے ہوتے ہیں، تو وہ اوربات ہے،پھر میں ان کے سامنے آپ کو بہت بردبار اور سمجھدار لگوں گی لیکن میں اپنی ذات میں ایک عام سی لڑکی ہوں، جو بات چیت کرنے سے بالکل نہیں گھبراتی ہے۔
س: آپ نے کیرئیر کی ابتدا ماڈلنگ اور ٹیلی وژن پر اداکاری سے کی، وہی آپ کا بنیادی حوالہ بھی ہے، اب یہ فلم’’لال کبوتر‘‘ آپ کی دوسری فلم ہے، تو اس حوالے سے آپ کیا سوچ رہی ہیں، پاکستانی سینما کے بحالی والے دور میں آپ کی شرکت کتنی ہوپائے گی، خود کو مستقبل میں اس سینما کے منظر نامے پر کہاں دیکھ رہی ہیں؟
ج: میں اتنا نہیں سوچ سکتی، البتہ میرا یہ یقین ہے، خدا آپ کے لیے بہتر سوچتا ہے، اگر وہ مجھے اس طرف لے جارہا ہے، تو یہ راستہ میرے لیے ٹھیک ہوگا، میں اتنی منصوبہ بندی کرنے میں ماہر نہیں ہوں، مجھے کوئی پیشکش ہوتی ہے تو میں سوچتی ہوں، مجھے یہ کام کرنا ہے یا نہیں کرنا ہے۔ میرا یہ سارا کام شوق کی حد تک ہے اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میرے خواہشات پوری بھی ہوجاتی ہیں۔ مثال کے طور پر میں نے جب اس فلم کے ہدایت کار کمال خان کی میوزک ویڈیو دیکھی ، تو میں نے دل ہی دل میں خواہش کی، مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کاموقع ملنا چاہیے اور پھر مجھے موقع مل بھی گیا۔

فلم ”لال کبوتر“ کے ہدایت کار کمال خان (درمیان میں سفید شرٹ میں ملبوس) اپنی پروڈکشن ٹیم ممبران کے سنگ
س: یعنی آپ پہنچی ہوئی بزرگ ہیں، کرامات بھی ہیں اداکاری کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ؟(مسکراتے ہوئے)
ج: (قہقہہ) میں یہ بات اکثرکہتی ہوں کہ اللہ میاں مجھ سے پیار کرتے ہیں، اسی لیے میری ہر خواہش پوری ہوجاتی ہے۔ ویسے بھی آپ کی نیت صاف ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔ ہر صاف نیت والے کے لیے اس کے دروازے کھلے ہیں۔
س: فلم’’لال کبوتر‘‘ میں آپ کا کردار خاصا تھرلر ہے، اس کام سے جوآپ نے اب تک کیا، یہ اس سے مختلف تھا؟
ج: کام تو کوئی بھی آسان نہیں ہوتا ہے، ہر کام کرکے ہم کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں، اب جب میں نے اس فلم کا کام ختم کرنے کے بعد اس کا فائنل ٹریلر دیکھا، تو مجھے منفرد احساس ہوا، یہ میرے لیے ایک خوشگوارتجربہ ہے، کیونکہ یہ میری توقع کے بالکل برعکس تھا، میں نے بھی ایسا نہیں سوچا تھا، جیسے میرا کردار اسکرین پر نمایاں ہوا ہے، یہ پہلو بہت متاثرکن ہے کہ آپ کو بھی خبر نہ ہو، آپ جو کام کر رہے ہیں، وہ کیا تاثرقائم کرے گا۔ میں اس حوالے سے بہت خوشی محسوس کر رہی ہوں۔

مذکورہ فلم سے پاکستانی فلمی منظر پر ابھرنے والی ایک عمدہ جوڑی ۔ احمد علی اکبر اور منشا پاشا
س: ٹیلی وژن سے فلم کی طرف آنے والے اداکاروں کے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ فلم کے مزاج کے مطابق خود کو ڈھالیں، مگر آپ اس میں کامیاب دکھائی دیں، تو یہ کوشش شعوری طور پر کی، یا خودبخود ہی سب کچھ ہوتا چلا گیا؟
ج: کچھ اداکار ہوتے ہیں، جو صرف اپنے چہرے کے تاثرات تک خود کو محدود رکھتے ہیں اور کچھ ہوتے ہیں، جو اپنی جسمانی حرکات و سکنات کے ساتھ کردار کو نبھاتے ہیں، لہٰذا میں دونوں باتوں کا خیال رکھتی ہوں،لیکن ایسا نہ کروں ،تو مجھے خود محسوس ہو جاتا ہے کہ کردارمیں کہیں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ میں اپنا سین عکس بند کروانے کے بعد خود دیکھتی ہوں ، اگر مطمئن نہ ہوں ،تواس کو دوبارہ کرنے کا کہتی ہوں، خود کو مطمئن کرنے کی عادت نے شاید مجھے اپنے کام پر گرفت رکھنے میں کافی مدد دی ہے۔ ٹیلی وژن کے زیادہ تر اداکار باریکیوں کا خیال نہیں کرتے، مجھے چونکہ اس بات کی عادت ہے ، تو چاہے ٹیلی وژن ہو فلم کی اسکرین، میں دونوں جگہ اپنے کردار کو اسی انداز میں نبھاتی ہوں، اس لیے دیکھنے والوں کو شاید میرا کام پسند آجاتا ہے۔ یہ میرے کام کرنے کی ایک تکنیک ہے، ہر اداکار اپنی تکنیک کے ساتھ کام کرتا ہے۔
س: آپ کی اداکاری کے لیے سنجیدگی ایسے ہے، جس طرح تھیٹر کے اداکاروں کی ہوتی ہے، تو کبھی تھیٹر میں کام کرنے کا اتفاق ہوا؟
ج: ابھی تک تو نہیں ہوا، لیکن میں تھیٹر کے میڈیم کو بہت پسند کرتی ہوں اور کام کرنا بھی چاہتی ہوں، لیکن معاملہ یہ ہے، اب تک میری جتنی بات چیت تھیٹر کے شعبے میں متعلقہ افراد سے ہوئی ہے، وہ ایک سال کی تاریخیں مانگتے ہیں، اب یہ میرے لیے ممکن نہیں ہے، اس فلم کی عکس بندی کے دوران بھی مجھے پیشکش ہوئی، مگر اس کی مدت ایک سال تھی، اس لیے وہ موقع میرے کام نہ آسکا مگر کم وقت والے تھیٹر منصوبے پر میں بہت زیادہ متجسس ہوں اور کام کرنا چاہوں گی، اگر مجھے کوئی پیشکش ہوئی۔

علی احمد اکبر ۔ علی کاظمی ۔ منشا پاشا
س: آپ کے ساتھ اس فلم میں دیگر جن اداکاروں نے کام کیا،جیسے راشد فاروقی اور سلیم معراج جیسے منجھے ہوئے اداکار بھی موجود تھے، ان کے ساتھ فلم میں اداکاری کرکے کیسا محسوس ہوا ؟
ج: راشد فاروقی کے ساتھ تو کام کرنے کا اتفاق ہوا، لیکن سلیم معراج کے ساتھ پہلا موقع تھا، یہ بہت بڑے اداکار ہیں، مجھے ان کے ساتھ کام کرکے واقعی بہت مزا آیا۔ میں نے ان کے ساتھ کام کیا اور بہت سیکھا۔ انہوں نے بھی میری اس فلم کے حوالے سے بھی حوصلہ افزائی کی، جو ظاہر ہے میرے جیسے نوآموز فنکار کے لیے بہت اہمیت کی حامل بات ہے، میں اس سے بہت خوش ہوں۔
س: پاکستانی سینما اور عالمی فلمی صنعت کے رجحان کو ساتھ ملا کر کیا سمجھتی ہیں، ہمارے ہاں کس طرح کی فلمیں بننی چاہیں بطور اداکارہ جس میں آپ کو کام کرنے کی مزید شدت سے خواہش پیدا ہو؟
ج: پاکستان کوضرورت ہے، یہاں مختلف انداز اور اقسام کی فلمیں بنیں تاکہ ہمارے فلمی صنعت ترقی کرے۔ دنیا میں تو بہت مختلف نوعیت کا کام ہو رہا ہے، ان کے بے شمار موضوعات ہیں، وہاں کامیڈی، رومانس، ایکشن، تھرلر، ہارر، سائنس فکشن، ہسٹاریکل اور دیگر شامل ہیں، پھر ان میں بھی ذیلی موضوعات ہیں، جس طرح اگر کامیڈی ہے ، تو اس میں بھی آگے مختلف اقسام ہیں، اس طرح پندرہ بیس قسموں کے موضوعات اور انداز ہیں، جن پر فلمیں بنائی جاتی ہیں، کسی بھی بڑی اور بین الاقوامی فلمی صنعت کے لیے یہ سب موضوعات ضروری ہیں، ہمارے ہاں تو صرف ایک دو موضوعات ہیں، جن پر زیادہ تر فلمیں بنتی ہیں، ہمیں بھی اپنا کینوس اتنا ہی کشادہ کرنا پڑے گا، پھر بات آگے بڑھ سکتی ہے۔
اس میں ایک بات اور یہ بھی ہے کہ فلم سازوں کے اپنے مخصوص انداز ہوتے ہیں، جن کے ذریعے وہ پہچانے جاتے ہیں، وہ اپنے طریقے سے سینما کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں، جس طرح اب اگر ہالی وڈ کے معروف فلم ساز اسٹیون اسپیل برگ کی فلمیں دیکھیں ، تو دیکھ پر پتہ چل جاتا ہے، یہ ان کی فلم ہے، اسی طرح کئی اور ہدایت کار ہیں، جن کا کام ہی ان کے ہونے کی علامت ہے، سینما کی ترقی میں یہ پیشہ ورانہ رویہ بھی بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ رواج بنے گا، لیکن ابھی کچھ برس لگیں گے، لیکن ہم بھی یہاں تک پہنچ جائیں گے۔

نوجوان نسل پر مبنی ٹیم ۔ فلم کے ہدایت کار کمال خان ، پروڈیوسرز کامل چیمہ ، ہانیہ چیمہ اور فلم کے فنکاروں میں شامل علی احمد اکبر، منشا پاشا ودیگر
س: آپ کی عالمی سینما پر گہری نظر ہے، تو آپ کے پسندیدہ فلم ساز یا اداکار کون ہیں؟
ج: مجھے برطانوی نژاد امریکی فلم ساز اور ہدایت کار الفریڈ ہچکوک کی فلمیں بہت پسند ہیں، میں نے زمانہ طالب علمی میں ان کے کام کو بہت غور سے دیکھا۔ مجھے ایرانی فلم ساز و ہدایت کار اصغر فرہادی بہت پسند ہیں۔ ایسے بہت سارے اور نام ہیں، جن کے کام سے میں بے حد متاثر ہوں،ا یک دو ناموں تک خود کو محدود کرلینا اچھی بات نہیں ہوگی، میں بہت سارے فلم سازوں کا کام دیکھ چکی ہوں اور مزید دیکھنا چاہتی ہوں، مختلف موضوعات کے اعتبار سے مجھے کئی فلم ساز پسند ہیں۔
س: آپ کے مزاج کی گہری سنجیدگی اور موضوعات پر مکمل گرفت کا یہ رنگ بتاتا ہے، آپ پڑھتی لکھتی بھی ہیں، کچھ بلاگ جو آپ نے کچھ عرصہ پہلے لکھے، میری نظر سے بھی گزرے تو وہ کام کیسا چل رہا ہے؟
ج: سچ بات تو یہ ہے ،اب کچھ بھی ایسا کام نہیں ہو رہا، پہلے میں بہت کتابیں پڑھتی تھی، لکھنے کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری تھا۔ اب مطالعہ تو ہوتا ہے، لیکن موضوعات اور نوعیت تبدیل ہوگئی ہے، اب میں اخبارات، رسائل و جرائد، آن لائن ویب سائٹس وغیرہ اور سوشل میڈیا پر بہت چیزیں پڑھتی ہوں، البتہ شعرو ادب وغیرہ نہیں پڑھ رہی اور دیگر سنجیدہ کتب کی طرف دھیان نہیں جا رہا ہے۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، اس پرتوجہ زیادہ ہے۔ اپنے شعبے میں ہونے والے معاملات پر بھی نظر ہوتی ہے، کرنٹ افیئرز کے بارے میں بہت مطالعہ کرتی ہوں۔

خرم سہیل اور منشا پاشا ۔ دورانِ مکالمہ
س: بلاگ لکھنا کیوں چھوڑ دیا؟
ج: میں سچ لکھتی ہوں، وہ میرے لیے اورکیرئیر کے لیے شاید ناقابل برداشت ہوگا، میں ویسے ہی صاف اور سیدھی بات کرنے کی عادی ہوں، تو پھر اتنی سچائی کو سنبھالنا مشکل ہوگا، اس لیے لکھنا چھوڑ دیا۔ کسی بھی موضوع یا معاملے پر کچھ بھی کہہ دینا، بہت زیادہ بول دینا یا براہ راست کہہ دینے کی عادت میرے نزدیک ایک مسئلہ ہی ہے، جس سے اب میں اجتناب کرنے لگی ہوں، تاکہ زندگی پرامن رہے۔ کسی بھی معاشرے میں زیادہ سچ بولنا ہضم نہیں کیا جاتا، لوگ برا مان جاتے ہیں، مگر میں نے وقت کے ساتھ ساتھ خود کو ڈھال لیا ہے۔ شوبز کے شعبے میں میری اس سنجیدگی سے بہت فائدہ بھی اٹھایا گیا، مجھ سے لوگ جھوٹ بول رہے ہوتے تھے اور میں ان کو سچا سمجھ رہی ہوتی تھی۔

فلم کا ایک منظر
س: شوبز میں نئے آنے والوں کو لگتا ہے، اس شعبے میں بہت سفارش اور تعلقات کی ضرورت ہے اور کسی حدتک یہ بات درست بھی ہے ، تو ایسے ماحول میں وہ کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں، کوئی تجویز ؟
ج: مشکل توہے لیکن لگن سچی ہو تو راستہ مل ہی جاتا ہے۔ آپ کا کام پسند آنا شروع ہوگیا تو آپ کو مواقع ملنا شروع ہوجائیں گے، اپنے کام کو ٹھیک سے سیکھیں اور محنت کرتے رہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے، ہرکوئی تو پارٹیوں میں جاکر تعلقات نہیں بناسکتا، کچھ لوگ اپنی محنت اور صلاحیت ہی کے بل بوتے پر آگے آتے ہیں، تو اس لیے اپنے کام پر یقین ہونا چاہیے، تو کامیابی ضرور ملتی ہے۔