تعارف
ہانیہ اور کامل دونوں باصلاحیت بہن بھائی اور نئی نسل سے تعلق رکھنے والے فلم پروڈیوسرز ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے ہارورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستانی فلمی صنعت میں قدم رکھنے کا تہہ کیا، اپنے پہلے پروجیکٹ سے یہ شوبز کے منظر نامے پر موجود ہیں اورکامیابی کے لیے پرعزم ہیں، اس موقع پر ان سے بھی گفتگو کی، وہ بھی پیش خدمت ہے۔

کامل اور ہانیہ ۔ اپنے فلم کے کیرئیر کی پہلی فلم ”لال کبوتر“ کا مہورت کرتے ہوئے
س: آپ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں، اپنا اتا پتہ بتائیے(قہقہہ)
ہانیہ: یہ سوال کافی لوگوں نے پوچھا ہے کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں(قہقہہ)
کامل: فلمی دنیا میں ہماری جب کافی لوگوں سے دوستیاں ہوگئیں ، تب بھی ایک موقع ایسا بنا ، جب انہوں نے پوچھ ہی لیا کہ آپ کون ہیں اور فلمی صنعت میں ہی کیوں آئے ہیں(مسکراتے ہوئے)
س: آپ دونوں باصلاحیت بہن بھائی نے ایک جیسے کام کرنے کے بارے میں کیسے سوچا اور اس سفر کی ابتدا کیسے ہوئی؟
ج: کامل: ہماری پروڈکشن کمپنی کا نام ’’نہرگھر‘‘ ہے اور یہ نام اس لیے ایسے ہے کہ ہمارا گھرلاہور میں نہر کے کنارے تھا، جس میں ہم پلے بڑھے اور ہم نے ایک ساتھ لکھنا پڑھنا، سوچنا اور محسوس کرنا سیکھا۔ ایک عرصے تک ہم ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکے، ہم صرف بہن بھائی تھے، پھر ہماری دوستی ہوگئی اور ہم ایک ہی طرح سوچنے لگے۔ یہ زمانہ کالج کا تھا، جب ہم دوست بنے۔
ہانیہ: کیونکہ کالج کے دور میں کوئی اپنا نہیں تھا، اس لیے ایک دوسرے سے بات کی، تمام تفریق کو ایک طرف رکھ کر ایک دوسرے کو سمجھا اور پھر ایک ساتھ مل کر زندگی کے لیے جدوجہد کرنے کی ٹھانی اور پھر بس کام سے لگ گئے۔
س: ذاتی اور پیشہ ورانہ سفر کی شروعات کیسے ہوئیں؟
ج: کامل: میں نے ایچی ایسن سے پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنی تعلیم حاصل کی، ہانیہ بھی میرے ساتھ تھیں۔ یہ کانونٹ سے فارغ ہوکر ہارورڈ آئیں اور ہم نے اس طرح ساتھ تعلیم حاصل کی اور واپس آنے کے بعد آگے کام کرنے کی سوچ رہے ہیں، میں ہانیہ سے عمر میں ایک سال چھوٹا ہوں یہ مجھ سے بڑی ہیں۔

لال کبوتر کی تکون ۔ منشا پشا ، کمال خان ، احمد علی اکبر
س: عمومی طور پر نوجوان نسل جب پاکستان سے باہر جاتی ہے تو بہت کم ایسا ہوتا ہے، وہ پڑھائی کرکے مکمل طور سے واپس آجائیں اور مقامی طور پر اپنا کیرئیر شروع کریں، آپ دونوں نے اتنی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر واپس بھی آگئے، یہ واقعہ کیسے ظہور پذیر ہوا؟
ج: کامل: اس میں ہانیہ کا زیادہ ہاتھ ہے، انہوں نے مجھے تحریک دی۔ باہر رہنے میں کئی نقصانات بھی ہیں، وہاں رہنے کے لیے اداروں اور ملازمتوں کی پالیسی وغیرہ کے مطابق طرززندگی کو ڈھالنا پڑتا ہے، جو ہمیں پسند نہیں ہے، ہم آزاد پرندے ہیں، اس لیے اپنے وطن سے اچھی جگہ کوئی نہیں تھی کیونکہ یہاں میں اپنی مرضی سے کوئی بھی کام کرسکتا ہوں۔

ہانیہ چیمہ اور کامل چیمہ اپنی فلم سازی کے دوران خوشگوار موڈ میں
ج: ہانیہ: میرے ذہن میں شروع دن سے بہت واضح تھا، مجھے تعلیم مکمل کرکے واپس آنا ہے اور اپنے ملک میں ہی کام کرنا ہے۔ میں چونکہ بڑی ہوں، اس لیے میں نے ہر موقع پہلے پایا، فیصلے بھی خود کیے اور پہلے کیے۔ میں بھی چاہتی تو نیویارک میں کوئی اچھی ملازمت کرسکتی تھی یہ بہت آسان تھا، لیکن میں نے اپنے ملک واپس آنے کو ترجیح دی۔ فلم کے شعبے میں دلچسپی تھی، اس لیے سوچا اس میں کام کیا جائے، پھر اب سینما کی بحالی کے بعد ہم پہلی ہی نسل سے ہیں، جو اس کے لیے عملی اقدامات کرنے میں اب کوشاں ہے۔
س: ہارورڈ یونیورسٹی سے آپ نے کن موضوعات میں تعلیم حاصل کی؟
ج: ہانیہ: میرا کلیدی موضوع تو سوشولوجی تھا لیکن ذیلی موضوع کے طور پر فلم کا مضمون بھی شامل تھا۔
ج: کامل: میرے مضامین پولیٹیکل تھیوری سے متعلق تھے۔
س: آپ دونوں نے پروڈکشن کے شعبے میں ہی کیوں آنے کا سوچا، جبکہ یہ شعبہ تو منجھے ہوئے لوگوں کا ہوتا ہے، جو اس میں یہ کام اس لیے کرتے ہیں کہ وہ پیسے کما سکیں لیکن آپ تو نوجوان ہیں اور پیسے کمانے کی خواہش بھی زیادہ محسوس نہیں ہورہی آپ کے خیالات میں، تو پھر ایسی کیابات ہوئی؟
ج: ہانیہ: ایک بات تو یہ ہے، پروڈیوسر کا کام اتنا تکنیکی طور سے کٹھن نہیں ہے، جتنا ڈائریکٹر، ڈی اوپی اور سائونڈ ریکارڈسٹ کا کام ہے۔ پروڈیوسرکو تمام معاملات کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، اب ایک فلم پروڈیوس کرلی ہے تو میں کہہ سکتی ہوں، یہ کام اتنا مشکل نہیں ہے، جتنا فنکاروں اور ہدایت کار وغیرہ کا کام ہوتا ہے۔
ج: کامل: یہ الگ بات ہے کہ کئی سال سے چھٹی نہیں کی، مسلسل کام کرنا پڑا ہے۔
س: مالی اعتبار سے یہ مشکل شعبہ نہیں ہے کہ آپ کے پیسے خرچ ہو رہے ہوتے ہیں اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ ان کی واپسی ہوگی یا نہیں، خوش قسمتی ہوئی تو شاید منافع بھی مل جائے تو اس صورتحال کے باوجود کیسے اس شعبے میں قدم رکھنے کا خیال آیا؟
ج: کامل: ہم نے جب سوچا، فلم کے شعبے میں کام کیاجائے تو جائزہ لیا، ہمارے ہاں جوانی پھر نہیں آنی جیسی فلمیں بن رہی تھیں، اسی صورتحال میں کہیں سے ہمیں شروع کرنا تھا کہ کس شعبے میں اور کس موضوع یا کہانی کے ساتھ شروعات کی جائے تو پھر لال کبوتر سے ابتدا ہوئی، اب جو آپ کے سامنے ہے۔ ہم نے چھوٹے بجٹ کو ذہن میں رکھا، مگر معیاری فلم بنانامقصد تھا، اس لیے کافی سوچ بچار کی، ایسی کہانی ہو جو دیکھی جائے اور مقبول بھی ہو۔ ایک اچھی کہانی کی تلاش سے اس سلسلے کو شروع کیا۔ اسی میں ہمیں کمال خان ملے، اداکاروں سے ملاقاتیں ہوئیں اور آگے معاملہ بڑھتا چلاگیا۔ اس تلاش میں پہلے پہل ہمیں کچھ ایسے فلم ساز بھی ملے، جنہوں نے صرف کمانے کی غرض سے ہمارے لیے اپنی خدمات پیش کیں، مگر ہم چونکہ ایک اچھی فلم بنانے کی خواہش رکھتے تھے، اس لیے صرف کمرشل پہلوئوں سے کسی کے ساتھ کوئی کچھ طے نہ کیا۔

راشد فاروقی فلم کے ایک منظر میں
ج: ہانیہ: ہم نے خود کو سیکھنے کے لیے مہیا کیے رکھا، جب اس فلم پر کام شروع ہوا، تو اپنی انا بھی ایک طرف رکھ دی، اگر کہیں ہماری بات میں دم نہیں ہے تو اس کو مسترد کیا جاسکتا ہے، کمال کے ساتھ مل کر ہم نے کہانی کو مقدم رکھا، جس کی وجہ سے ہم بطور ٹیم ایک اچھی فلم بناپائے، کئی برس کی محنت ہے۔
س: اس فلم کی کہانی کی طرف کیسے ذہن گیا؟
ج: ہانیہ: اس فلم کاابتدائی خاکہ ہمارے ذہن میں تھا، پھر کمال سے بات ہوئی، اس میں مزید کئی کردار مل گئے اور یوں اس میں سات مختلف لکھاریوں نے مل کر یہ فلم لکھی ، پھر جس کا اسکرین پلے علی عباس نقوی نے لکھا۔
ج: کامل: اس فلم کی کہانی کو حتمی طور پر کمال نے ہی فائنل کیا کہ کہانی میں کس موڑ پر کہاں کیا کرنا تھا، کمال اور علی عباس نے مل کر کہانی کو حتمی شکل دی۔

خرم سہیل فلم لال کبوتر کے فنکاروں کے ہمراہ